ARI Radio Programs
Pakistan Alliance for Nicotine and Tobacco Harm Reduction (PANTHR)

سگریٹ نوشی کا مسئلہ اور حل

2025 مارچ

جب کوئی پاکستان میں سگریٹ نوشی کے خاتمے کا سوچتا ہے یا اس کے لیے کوشش کرتا ہے تو وہ اس مسئلے کی نوعیت دیکھ کر مایوس ہو جاتاہے۔سوال یہ ہے وہ ملک کیسے تمباکو سے پاک ہونے کا ہدف حاصل کر سکتا ہے جہاں تین کروڑ دس لاکھ (31 ملین)سے زیادہ افراد تمباکو استعمال کرتے ہوں؟ اس ہدف کا حصول انتہائی مشکل ہے کیوں کہ تمباکو استعمال کرنے والے افراد میں آدھے سے زیادہ یعنی ایک کروڑ ستر لاکھ سگریٹ نوش ہیں۔

دوسرے اشارے بھی اتنے ہی مایوس کن ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ہر پانچ میں سے دو سگریٹ نوش دس سال کی عمر سے پہلے سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کے خاتمے کی خدمات و سہولیات دستیاب نہیں ہیں یا پھر بہت کم ہیں جس کی وجہ سے ایک سال میں صرف تین فیصد سے بھی کم افراد کامیابی کے ساتھ سگریٹ نوشی ترک کرتے ہیں۔ پاکستان میں تمباکوکے استعمال سے ایک سال میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار (160,000) سے زیادہ اموات ہوتی ہیں جبکہ تمباکو نوشی سے ہونے والی تمام بیماریوں اور اموات سے قومی خزانے کو ایک سال میں 615 ارب روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔

ان اعدادوشمار کو دیکھیں تو پاکستان کا تمباکو سے پاک ملک بننا مشکل لگتا ہے۔ وہ ملک تمباکو سے پاک سمجھا جاتا ہے جہاں تمباکوکے استعمال کی شرح پانچ فیصد سے کم ہو۔ بعض ممالک ایسے بھی ہیں جو تمباکونوشی کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں اور وہ تمباکو سے پاک بننے کی راہ پر کامیابی سے گامزن ہیں۔یہاں یہ نکتہ ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ یہ ممالک سگریٹ نوشی سے پاک بننے کے لیے کم نقصان دہ متبادل مصنوعات سمیت تمام دستیاب ذریعوں سے استفادہ کررہے ہیں۔

تمباکو نوشی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور سویڈن کی کارکردگی کا موازنہ کرنے والی ایک رپورٹ ”ٹیل آف ٹو نیشنز“ یہ واضح کرتی ہے کہ سگریٹ نوشی کی شرح میں کمی لانے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ماہر فیملی فزیشن اور عالمی سطح پر صحت میں بہتری لانے کے سرگرم کارکن ڈاکٹر ڈیلن ہیومن اس رپورٹ کے مصنف ہیں۔ انہوں نے صحت عامہ کی حکمت عملیوں پر عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او)کے تین ڈائریکٹر جنرل اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے مشیر کے طور پر کام کیا ہے۔

سویڈن میں ہارم ریڈکشن(نقصان میں کمی کرنا) کی ایک جرأت مندانہ پالیسی، سستی اور قابل رسائی متبادل مصنوعات کی دستیابی اور اس سلسلے میں حکومتی تعاون کا نتیجہ ہے کہ ملک میں تمباکونوشی کی شرح میں 2015 سے اب تک 46 فیصد کمی آئی ہے۔ سویڈن تمباکو سے پاک حیثیت حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں تمباکو نوشی کی شرح 12.4 فیصد ہے جس میں گزشتہ دہائی کے دوران صرف 18 فیصد کمی آئی ہے۔ تمباکو نوشوں کے لیے چند ایک متبادل دستیاب ہیں اور ہارم ریڈکشن تو بحث کا حصہ ہی نہیں ہے۔

یہاں پاکستان اور سویڈن کا موازنہ مفید رہے ہوگا۔ اس وقت سویڈن میں سگریٹ نوشی کی شرح (آبادی کے فیصد کے طور پر) 5.3 فیصد جبکہ پاکستان میں 12.4 فیصد ہے۔

سویڈن میں ہارم ریڈکشن سے استفادہ کرنے کے لیے باقاعدہ پالیسی موجود ہے جبکہ پاکستان میں ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ گو کہ پاکستان میں کم نقصان دہ متبادل مصنوعات کی ایک ابھرتی اور بڑھتی ہوئی مارکیٹ موجود ہے مگر اس کے باوجود پاکستان ابھی تک تمباکو نوشی کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں ان مصنوعات کے کردار کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔

سویڈن میں کم نقصان دہ متبادل مصنوعات وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں جبکہ پاکستان میں یہ کافی مہنگی ہیں۔ الیکٹرونک سگریٹ سمیت ان متبادل مصنوعات کے گاہک اعلیٰ اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ اسی طرح سویڈن میں ان مصنوعات پر ٹیکس کم ہے جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

یہ بہت عجیب بات ہے کہ پاکستان میں لوگ یہ متبادل مصنوعات استعمال کر رہے ہیں مگر ان کے استعمال کے لیے قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں۔ ان مصنوعات کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے کے مطالبا ت کئے جارہے ہیں لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔یہاں یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ سویڈن میں حکومت ٹوبیکو ہارم ریڈکشن (تمباکو کے نقصان میں کمی کرنا) کی ترویج میں فعال کردار ادا کررہی ہے اور اپنی اس پالیسی کے ثمرات سمیٹ رہی ہے۔

پاکستان میں ہر چار میں سے ایک شخص سگریٹ نوشی کرتا ہے حالانکہ سگریٹ سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں وسیع پیمانے پر آگہی موجود ہے۔ دوسری جانب چند دہائیوں قبل سویڈن کے مردوں میں سے نصف سگریٹ نوشی کرتے تھے لیکن اب وہاں مردوں میں سگریٹ نوشی کی شرح صرف 4.9 فیصد ہے جو پاکستان کے ایک چوتھائی سے بھی کم ہے اور اس میں مسلسل کمی آرہی ہے۔

دونوں ممالک میں ایسی مصنوعات کی ایک تاریخ موجود ہے جو منہ میں رکھ کر استعمال کی جاتی ہیں۔ سویڈن نے روایتی طور پر سنوس کا استعمال کیا ہے جسے صحت عامہ کی پالیسی نے سگریٹ نوشی کے مقابلے میں کافی حد تک کم خطرے کا حامل قرار کیا ہے اور اسے سگریٹ نوشی کے ایک محفوظ متبادل کے طور پر فروغ دیا ہے۔ پاکستان میں قانون ساز نکوٹین پاؤچز اور دھوئیں سے پاک دیگر کم نقصان دہ متبادل مصنوعات کو قبول کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں حالانکہ یہ مصنوعات صحت کے لیے کم خطرے کی حامل ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ ”نسوار“اور ”پان“ جیسی زہریلی اشیاء استعمال کرتے ہیں۔

سویڈن نے نکوٹین کی مصنوعات پر پابندی لگانے یا ان کا استعمال حد سے زیادہ محدود کرنے کی بجائے انہیں اپنانے کی پالیسی اپنائی۔ ان مصنوعات پر منتقلی کا یہ سلسلہ سنوس سے شروع ہوا جو 2015 میں ویپنگ اور 2018 میں نکوٹین پاؤچز تک پھیل گیا۔ سویڈن نے ان متبادل مصنوعات کو قابل رسائی، سستی اور سماجی طور پر قابل قبول بنانے کی بدولت ملک میں 2012 سے لیکر اب تک تمباکونوشی کی شرح 54 فیصد کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

سویڈن نے اپنی توجہ محفوظ متبادل مصنوعات کو بالغ تمباکونوشوں کے لیے قابل رسائی اور ارزاں بنانے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جو پاکستان کو ابھی اپنانی ہے۔ اس وقت پاکستان کا ٹوبیکو کنٹرول فریم ورک سختی سے سگریٹ کی طلب کو محدود کرنے پر زور دیتا ہے اور اس میں ہارم ریڈکشن پر بہت کم زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کو ٹوبیکو کنٹرول کے موجودہ اقدامات کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ محفوظ متبادل مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے سویڈن کی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی ضرورت کے لحاظ سے اسے اپنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو سویڈن کی طرح نکوٹین کی مصنوعات کے استعمال کے لیے کم از کم عمر کا تعین کرنے اور اس سلسلے میں سازگار قوانین کا نفاذ کرنا چاہیے۔ البتہ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ بالغ سگریٹ نوشوں کو محفوظ متبادل مصنوعات تک رسائی حاصل ہو تاکہ وہ اپنی اس عادت کو ترک کر سکیں۔ اگر تمباکو نوشی ترک کرنے کی خدمات و سہولیات میں بہتری لائی جائے تو پاکستان اگلے دس سالوں میں تمباکو سے پاک ملک بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے مثبت اثرات ملکی معیشت پر جلد ہی پڑنا شروع ہو جائیں گے۔

Back






Facebook Twitter Instagram